لندن،7اگست((ایس اونیوز/آئی این ایس انڈیا): ذرائع ابلاغ میں کچھ عرصیسے یہ خبریں آ رہی ہیں کہ مصری حکومت فلسطینی دھڑوں کے درمیان مصالحت کرانے کی کوششیں کررہی ہے، مگر فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کی جانب سے قومی مفاہمت کے لیے مصری کوششوں کو زیادہ اہمیت نہیں دی جا رہی ہے۔اسی ضمن میں لندن سے شائع ہونے والے عربی روزنامہ الحیاۃ نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے ایک ماہ قبل فلسطینی صدر محمود عباس کے سامنے حماس کے ساتھ مفاہمت کے حوالے سے چھ نکاتی فارمولہ پیش کیا تھا۔ صدر السیسی سے ملاقات کے دوران محمود عباس نے ان کی تجاویز سے اتفاق کیا اور کہا تھا کہ وہ قومی مفاہمت کا عمل آگے بڑھانے کے لیے انٹیلی جنس چیف ماجد فرج کو ذمہ داری سونپیں گے۔ مگر بعد ازاں فلسطین واپسی پرمحمود عباس مصالحت کے حوالے سے مصری صدر کو کرائی گئی یقین دہانی سیپھر گئے۔ تاہم دوسری جانب مصری صدر کی طرف سے پیش کردہ چھ نکات سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے صدر السیسی کی پیشکش قبول کرلی ہے۔
اخبار نے باوثوق فلسطینی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے ایک ماہ قبل محمود عباس کے دورہ قاہرہ کے دوران حماس کے ساتھ صلح کے لیے ثالثی کی پیشکش کی تھی۔صدر السیسی کی طرف سے حماس کے ساتھ مصالحت کے لیے چھ نکات پیش کیے تھے۔ ان میں غزہ کی پٹی انتظامی کمیٹی کو تحلیل کرکے تمام انتظامی اختیارات قومی حکومت کو سونپنا، غزہ کی پٹی کے خلاف فلسطینی اتھارٹی کے تمام انتقامی اقدامات کو ختم کرنا، حماس کے خلاف انتقامی پالیسی ترک کرنا، قومی اتفاق رائے سے طے پانے والی حکومت کو غزہ کی پٹی میں آزادانہ کام کی اجازت دینا، غزہ کی پٹی میں سرکاری ملازمین کے مسائل حل کرتے ہوئے حماس کے دور میں بھرتی ہونے والے ملازمین کو تسلیم کرنا، فلسطین میں عام انتخابات کے لیے ماحول سازگار بنانا اور تمام فریقین کا قاہرہ کی میزبانی میں آپس میں صلح کرنا جیسے نکات شامل تھے۔ حماس نے ان تمام نکات سے کلی طور پر اتفاق کیا مگر محمود عباس نے رام اللہ واپسی کے بعد مصری صدر کی پیشکش سے انحراف کرتے ہوئے قومی مصالحت کے لیے اپنی مرضی کی شرائط پیش کیں۔
اخبار نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ فلسطینی انٹیلی جنس چیف میجر جنرل ماجد فرج نے حماس کے ایک رہ نما سے ٹیلیفون پر بات کی اور کہا کہ محمود عباس مصری صدر کے چھ نکات کے بجائے اپنے تین نکات پر مفاہمت چاہتے ہیں۔ان تین نکات میں وہ شرائط شامل ہیں جو محمود عباس پہلے بھی بار بار دہراتے رہے ہیں۔ ان میں غزہ کی انتظامی کمیٹی کو تحلیل کرنا، جون 2014ء کو تشکیل پانے والی قومی حکومت کو غزہ کی پٹی میں کام کی مکمل آزادی فراہم کرنا، فلسطین میں پارلیمانی، صدارتی اور نیشنل کونسل کے انتخابات کی تیاری کے ساتھ ساتھ گذشتہ برس بیروت میں حماس اور فتح کے درمیان طے پائے مصالحتی معاہدے کی شرائط پرعمل درآمد کرنا شامل ہے۔ماجد فرج نے کہا کہ صدر محمود عباس حماس سے اپنے خلاف جاری منفی پروپیگنڈہ بند کرانا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر عباس کے خلاف حماس کے ساتھ ساتھ امریکا اور اسرائیل نے بھی متوازی مہم شروع کر رکھی ہے۔